EMI Loan Calculator
EMI Loan Calculator
ad3
Pages
Thursday, 14 October 2021
Thursday, 14 October 2021 by get everything · 0
Wednesday, 13 October 2021
Thursday, 6 February 2020
بعدالت جناب جج فیملی کورٹ ضلع۔۔۔۔۔۔
۔ مسماہ۔۔۔۔۔۔۔۔دختر۔۔۔۔۔۔۔۔۔قوم۔۔۔۔۔۔۔۔سکنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ولد۔۔۔۔۔۔۔قوم۔۔۔۔۔۔
نابالغ بر فاقت مدعیہ نمبرب1 والدہ حقیقی نابالغ
مدعیان
بنام
۔۔۔۔۔۔۔۔ولد۔۔۔۔۔قوم۔۔۔۔۔ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدعا علیہ
دعوی دلاپانے ڈگری خرچہ نان و نفقہ مبلغ 10000 روپے ماہوار فی کس مدعی، سابقہ مبلغ 40000 روپے و آئیندہ 25 فیصد سالانہ اضافہ بحق مدعیہ نمبر 1 تا عدت، بحق مدعی نمبر 2 تا بلوغت ، واپسی سامان جہیز بشمولہ و منسلکہ فہرست بصورت دیگر قیمت سامان جہیز مبلغ 350800 روپے و بصورت طلاق مبلغ 200000 روپے۔
جناب عالی۔ مدعیان حسب ذیل عارض ہیں۔
1۔ یہ کہ مدعی نمبر2 نابالغ ہے جو کہ پیروی مقدمہ کرنے سے قاصر ہے مدعیہ نمبر1 نابالغ کی والدہ حقیقی ہے اور نابالغ زیر پرورش مدعیہ نمبر 1 ہے جسکا مفاد نابالغ کے مفاد کے منافی نہ ہے اور وہ نا بالغ کی بہترین نگران اور محافظ ہے لہذا نابالغ کی حد تک دعوی ھذا برفاقت والدہ حقیقی دائر کیا جا رہا ہے۔
2۔ یہ کہ تقریبا آٹھ سال پہلے مدعیہ اول کا نکاح ہمراہ مدعا علیہ شریعت محمدی کے مطابق انجام پایا۔مدعیہ اول مدعا علیہ کے گھر آباد ہو کر حقوق زوجیت ادا کرتی رہی ہے جسکے نتیجے میں مدعی دوم کی پیدائش ہوئی جو کہ مدعیہ اول کے پاس ہے۔
3۔ یہ کہ مدعا علیہ کا سلوک مدعیہ اول کے ساتھ شروع سے ہی اچھا نہ تھا مدعیہ کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیتا تھا لیکن مدعیہ اول صرف اپنے والدین کی عزت کی لاج کی خاطر گزارا کرتی چلی آئی مگر مدعا علیہ کا مزاج بتدریج وقت کے ساتھ مزید خراب ہوتا چلا گیا۔
4۔ یہ کہ چار ماہ قبل مدعا علیہ نے مدعیہ اول کو مار پیٹ کر اور زبانی سہہ بار طلاق دیتے ہوئے پارچات پوشیدنی میں بمع نابالغ دوم کو گھر سے نکال دیا۔جسکے بعد مدعیہ اول بمعہ مدعی دوم اپنے میکے آ گئی تب سے یہیں رہائش پزیر ہے مدعیہ اول کا سامان جہیز بشمولہ منسلکہ فہرست مدعا علیہ کے پاس ہے جو کہ مدعیہ اول کو دینے سے انکاری ہے اس دوران مدعا علیہ نے مدعیان کو خرچہ نان و نفقہ ادا نہ کیا ہے جو کہ مدعیان مدعا علیہ سے شرعاً و قانونا لینے کے حقدار ہیں۔
5۔ یہ کہ مدعا علیہ ٹھیکہ داری کا کام کرتا ہے اور اپنے دو عدد مکان بھی کرائے پہ دے رکھے ہیں جسکی ماہانہ آمدنی تقریبا پچاس ہزار روپے ہے وہ مدعیان کو مبلغ 10000 روپے ماہوار فی کس مدعی سابقہ و آئیندہ خرچہ بڑی آسانی سے ادا کر سکتا ہے۔
6۔ یہ کہ ہر چند مدعا علیہ کو کہا اور کہلوایا کہ وہ مدعیان کو مبلغ 10000 روپے ماہوار فی کس مدعی سابقہ و آئیندہ خرچہ نان و نفقہ بحق مدعیہ اول تا عدت، بحق مدعی دوم تا بلوغت 25 فیصد سالانہ اضافہ و سامان جہیز بشمولہ منسلکہ فہرست بصورت دیگر قیمت سامان جہیز مبلغ350800 روپے اور طلاق کی مد میں مبلغ 200000 روپے مدعیہ اول کو ادا کرے مگر مدعا علیہ لیت و لعل کرتے ہوئے ایک ہفتہ قبل قطری طور پر انکاری ہو گیا ہے اس لیے ضرورت دعوی ھذا پیش آئی ہے۔
7۔ یہ کہ بنائے دعوی اول تقریبا 4 ماہ قبل جب مدعا علیہ نے مدعیہ اول کو مار پیٹ کر اور سامان جہیز بشمولہ و منسلکہ فہرست چھین کر اور زبانی طور پر سہہ بار طلاق دے کر پارچات پوشیدنی میں معہ نابالغ مدعی دوم کو گھر سے نکال دیا و بنائے مخاصمت سات دن قبل پیدا ہوئی۔
8۔ یہ کہ فریقین ۔۔۔۔۔۔۔ کے رہائشی ہیں اور بنائے دعوی بھی یہیں رونما ہوئی اس لیے عدالت جج فیملی کورٹ اختیار و سماعت مقدمہ ھذا حاصل ہے۔
9۔ یہ کہ دعوی ھذا پر مقررہ کورٹ فیس چسپاں کر دی گئی ہے۔
اندریں حالات استدعا ہے کہ ڈگری خرچہ نان و نفقہ مبلغ 10000 روپے ماہوار فی کس مدعی، سابقہ مبلغ 40000 روپے و آئیندہ 25 فیصد سالانہ اضافہ بحق مدعیہ اول تا عدت و بحق مدعی دوم تا بلوغت و واپسی سامان جہیز بشمولہ و منسلکہ فہرست بصورت دیگر قیمت سامان جہیز مبلغ 350800 روپے و بصورت طلاق مبلغ 200000 روپے بحق مدعیہ اول معہ خرچہ مقدمہ صادر فرمائی جائے و دیگر داد رسی قرین انصاف عدالت ہو بخشی جاوے
عرضے
مسماہ۔۔۔۔۔۔دختر۔۔۔۔۔۔قوم۔۔۔۔ ساکن۔۔۔۔۔۔
تصدیق بمقام۔۔۔۔۔۔۔مورخہ۔۔۔۔
حلفا تصدیق کرتی ہوں کہ مراتب عرضی دعوی 1 تا 6 میرے علم سے اور مراتب 7 تا 9 میرے بہترین یقین سے صحیح و درست ہیں۔
العباد
مسماہ۔۔۔۔۔۔۔۔
بعدالت جناب جج فیملی کورٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدعیہ بنام۔ مدعا علیہ
دعوی دلا پانے ڈگری خرچہ نان و نفقہ وغیرہ
فہرست سامان جہیز ملکیتی مدعیہ نمبر 1
جناب عالی !
1. طلائی زیورات
2. چاندی کے زیورات
3. فرنیچر
4. الیکٹرونکس آیٹمز
5. ڈنر سیٹ
6. ٹی سیٹ امپورٹڈ
7. واٹر سیٹ
8. بستر
9. لوہے کی چار پائیاں
10. پلاسٹک کے برتن
11. سٹیل کے برتن
12. موٹر سائیکل یا گاڑی
العبد
مسماہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
بزریعہ کونسل:
ایڈووکیٹ۔۔۔
مدعیہ بنام۔ مدعا علیہ
دعوی دلا پانے ڈگری خرچہ نان و نفقہ وغیرہ
فہرست سامان جہیز ملکیتی مدعیہ نمبر 1
جناب عالی !
1. طلائی زیورات
2. چاندی کے زیورات
3. فرنیچر
4. الیکٹرونکس آیٹمز
5. ڈنر سیٹ
6. ٹی سیٹ امپورٹڈ
7. واٹر سیٹ
8. بستر
9. لوہے کی چار پائیاں
10. پلاسٹک کے برتن
11. سٹیل کے برتن
12. موٹر سائیکل یا گاڑی
العبد
مسماہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
بزریعہ کونسل:
ایڈووکیٹ۔۔۔
بعدالت جناب جج فیملی کورٹ۔۔۔۔۔۔۔
مدعیہ۔ بنام۔ مدعا علیہ
دعوی دلاپانے ڈگری خرچہ نان و نفقہ
فہرست گواہان معہ مختصر خلاصہ بیانات گواہان منجانب مدعیان
جناب عالی!
1. ۔۔۔۔۔۔۔۔
2. ۔۔۔۔۔۔۔۔
3. ۔۔۔۔۔۔۔۔
4. ۔۔۔۔۔۔۔۔
5. مدعیہ نمبر 1 بطور گواہ خود
خلاصہ شہادت:
گواہان نمبر 1 تا 4 ۔ مدعیان کے دعوی کی تائید کریں گے
گواہ نمبر 5۔ مدعیہ نمبر 1 اپنے دعوی کی تائید و تصدیق کرے گی۔
العبد
مسماہ۔۔۔۔۔۔
بزریعہ کونسل:
ایڈووکیٹ۔۔۔۔۔
مدعیہ۔ بنام۔ مدعا علیہ
دعوی دلاپانے ڈگری خرچہ نان و نفقہ
فہرست گواہان معہ مختصر خلاصہ بیانات گواہان منجانب مدعیان
جناب عالی!
1. ۔۔۔۔۔۔۔۔
2. ۔۔۔۔۔۔۔۔
3. ۔۔۔۔۔۔۔۔
4. ۔۔۔۔۔۔۔۔
5. مدعیہ نمبر 1 بطور گواہ خود
خلاصہ شہادت:
گواہان نمبر 1 تا 4 ۔ مدعیان کے دعوی کی تائید کریں گے
گواہ نمبر 5۔ مدعیہ نمبر 1 اپنے دعوی کی تائید و تصدیق کرے گی۔
العبد
مسماہ۔۔۔۔۔۔
بزریعہ کونسل:
ایڈووکیٹ۔۔۔۔۔
Thursday, 6 February 2020 by get everything · 0
Friday, 3 January 2020
*قبر کشائی کے قوانین اور طریقہ کار*
کسی بھی مقتول کی موت کی وجہ معلوم کرنے اور تحقیات کرانے کے لیے مجسٹریٹ کو درخواست زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری گزاری جاسکتی ہے جس پر مجسٹریٹ انکوائری تشکیل دینے کاحکم دے سکتا ہے
جب کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 176(2)کے تحت درخواست گزار کر قبر کشائی کراے جانے کی استدعا کی جاسکتی ہے
جس پر مجسٹریٹ درخواست منظور کرکے اپنی نگرانی پر قبر کشائی کرانے کے بعد لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم دے سکتا ہے تاکہ وجہ موت کا ٹھیک طرح پتہ چل سکے
اعلی عدلیہ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ قبر کشائی کی درخواست زائد المعیاد ہو تب بھی مجسٹریٹ درخواست کو خارج نہیں کرسکتا
ایک اور مقدمہ میں قرار دیا گیا ہے کہ اگرمقدمہ عدالت میں چل رہا ہو اور کوئی فریق قبر کشائی کی درخواست گزارے تو دوسرے فریق کو سنے بغیر درخواست منظور نہ کی جاے
اگر ایک بار پوسٹ مارٹم ہوجاے اور تدفین ہوجاے تو دوبارہ قبر کشائی کرنے کے بعد دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا جاسکتا ہے
قبر کشائی کی درخواست یا قتل کی تحقیات کی درخواست گزارنے پر کوئی معیاد لاگو نہیں ہوتی یہ درخواست کبھی بھی دی جاسکتی ہے
قبر کشائی کی درخواست اور موت کی وجوہات کی تحقیات کی درخواست کوئی بھی دے سکتا ہے حتی کہ اجنبی شخص بھی مجسٹریٹ کو درخواست دے کر قانون کو حرکت میں لاسکتا ہے
جب ایک بار مجسٹریٹ کرادے تو گورنمنٹ یا پولیس دوبارہ انکوائری نہیں کراسکتی اور نہ ہی قبر کشائی کرا سکتی ہے
ایک اور فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پولیس کی قید میں کوئی بھی شخص پولیس کی ذمہ داری میں پر ہوتا ہے اگر وہ قیدی کو جعلی مقابلہ میں ماردے اور اگر پولیس کے خلاف کاروائی نہ ہوئی تو یہی سمجھا جاے گا کہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے
References
2003 PCRLj 2000 , PLD 1998 S.C 388,1985 MLD 782,2006 YLR 2953
Friday, 3 January 2020 by get everything · 1
Wednesday, 1 January 2020
ایف آئی آر کس طرح خارج کرائی جائے؟
مخالفین کو پھنسانے کیلئے جھوٹی اور فرضی کہانیوں پر مبنی ایف آئی آرز درج کرانا پاکستان میں عام ہے۔کسی کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک جرم ہے۔جس کی سزا7 سال تک قید ہوسکتی ہے۔ (دفعہ 182 تعزیرات پاکستان) اسی طرح اس جھوٹی ایف آئی آر میں درج کی گئی کہانی کے گواہوں کو بھی جھوٹی گواہی دینے پرسخت سزائیں مقرر ہیں (سیکشنز 193،194 پاکستان پینل کوڈ) جھوٹٰی گواہی دینے والے کو سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔
آپ کیخلاف جھوٹی ایف آئی آر درج ہوجائے تو کیا کریں؟
اگر ایف آئی آر کے اندراج کے بعد آپ کا چالان متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوا اور اس پر ٹرائل شروع نہیں ہوا تو آپ آئین کے آرٹیکل 199 اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561اے کے تحت اس ایف آئی آر کے اخراج کیلئے ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر سکتے ہیں۔آپ اپنا کیس ثابت کرتے ہیں تو ہائیکورٹ یہ ایف آئی آر خارج کرنے کا حکم دے گی۔
اسکی ایک مثال 2008 میں ہائیکورٹ کے جج جسٹس کاظم علی ملک کے ایک فیصلے سے دوں گا۔اس کیس میں مخالفین کا آپس میں لین دین کا کوئی مسئلہ تھا۔ایک فیکٹری کے مالک نے ایک شخص سے تیل خریدا تھا اور ادائیگی نہیں کی تھی۔یہ دیوانی عدالت کا معاملہ تھا لیکن مدعی نے پولیس سے ملی بھگت کر کے فیکٹری مالک کیخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔عدالت نے یہ ایف آئی آر خارج کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ دیوانی عدالت کا مسئلہ ہے پولیس نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا،نہ صرف یہ بلکہ ایف آئی درج کرنے والے تھانہ باغبانپورہ لاہور کے سب انسپکٹر اصغر علی اور تفتیشی سب انسپکٹر عرفان علی کو رٹ کرنے والے شخص کو 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
2008 YLR 2695.
تاہم اگر اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کا چالان پیش کر دیا گیا اور ٹرائل شروع ہوگیا ہو تو ہائیکورٹ اسے اس نچلی عدالت سے ہی ریلیف لینے کی ہدایت کرتی ہے۔اس صورت میں مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 249 اے اور سیشن جج ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265 کے کے تحت ملزم کو کسی بھی وقت مقدمہ سے بری کرسکتا ہے۔
پولیس رولز 1934 کا قانون نمبر 24 اعشاریہ 7 متعلقہ پولیس افسر کو بھی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ درج شدہ ایف آئی آر کو منسوخ کرسکتا ہے۔
Wednesday, 1 January 2020 by get everything · 1
Friday, 27 December 2019
P L D 1995 SC 34
طارق بشیر اور 5 دیگر --- درخواست گزار۔
بنام
سرکار
1994 کی اپیل نمبر 56-K کی کرمنل پیٹیشن میں leave to appeal درخواست کا فیصلہ 31 اگست 1994 کو ہوا۔
(کراچی میں سندھ ہائیکورٹ کے حکم سے اپیل پر ، مورخہ 1994. 5.7 کو فوجداری ضمانت نمبر 265/1994 (کراچی) 117/1994 (حیدرآباد)) میں منظور ہوا۔
(ا)۔ ضابطہ فوجداری (v) 1998
سیکشن۔ 496 اور 497 --- ضمانت --- قابل ضمانت جرم میں ضمانت کی فراہمی ایک حق ہے جبکہ ناقابل ضمانت جرم میں ضمانت کی فراہمی ایک حق نہیں بلکہ ایک رعایت ہے ---
ایسا جرم جسکی سزا دس سال سے کم ہو اس میں ضمانت کا ایک قاعدہ اور اصول طے ہے اور غیر معمولی معاملات میں جرم ثابت ہونے پر جس میں سزا دس سال سے زیادہ ہو وہاں ضمانت مسترد کردی جاتی ہے۔
۔ سیکشن 497 ، سی آر پی سی نا قابل ضمانت جرم کو دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے (i) ایسے جرائم جنکی کی سزا،سزائے موت ہو، عمر قید ہو، یا دس سال سے زیادہ ہو اور (ii) ایسے جرائم جن کی سزا دس سال سے کم ہو
ایسے ناقابل ضمانت جرائم جنکی سزا دس سال سے کم ہو وہاں عدالت اگر مطمئن ہو جائے تو ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن ضمانت صرف غیر معمولی صورت حال میں مسترد کی جائے گی مثلا --- ---
(الف) جہاں ملزم کے مفرور ہونے کا امکان موجود ہو۔
(ب) جہاں ملزم کا پراسیکیوشن کے ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا خدشہ ہو۔
(ج) جہاں ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے تو جرم کا اعادہ ہونے کا خطرہ ہو۔
(د) جہاں ملزم سابقہ مجرم ہو۔
(2). ضا بطہ فوجداری(v of 1998)
-سیکشن۔ 497 سی آر پی سی--- ضمانت -_- زیر سماعت مقدمہ میں قابل ضمانت جرائم میں اگر ملزم ضمانت کے مچلکے پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو یہاں عدالت کی زمہ داری ہے کہ وہ ملزم کے ذاتی بانڈ کے عوض اسکی رہائی کی معقولیت پر غور کرے نہ صرف جوڈیشل ریمانڈ کا پہلا حکمنامہ جاری ہونے پر بلکہ آنے والا ہر آرڈر ملزم کے ذاتی بانڈ کے عوض اسکی رہائی کو یقینی بنائے۔
قابل ضمانت جرائم کے زیر سماعت مقدموں میں اکثر ملزمان ضمانتی مچلکے نہ پیش کر سکنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر جیل بھیج دیے جاتے ہیں۔حالانکہ قانون میں گنجائش موجود ہے کہ انہیں ذاتی بانڈ کے عوض رہا کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ بہت ہی چھوٹے مقدموں میں عدالتیں/ماتحت عدالتیں ملزمان کو ضمانتی مچلکوں کی ناکامی پرجوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہیں جسکے ۔نتیجے میں سینکڑوں ملزمان جو کہ ذاتی بانڈ کے عوض رہائی پا سکتے تھے ایک لمبے عرصے تک جیل میں پڑے رہتے ہیں۔ لہذا سپریم کورٹ نے ہدایات جاری کیں کہ قابل ضمانت جرائم میں ملزمان کی طرف سے ضمانتی مچلکوں کی ناکامی کی صورت میں انہیں ذاتی بانڈ کے عوض ۔اس لئے سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ضمانت ضمانت / ضمانت کے مچلکے پیش کرنے میں ناکامی پر ملزم کو جیل بھیجنے یعنی جوڈیشل ریمانڈ کے نہ صرف پہلے حکم بلکہ اس کے بعد آنے والے ہر حکم میں یہ بھی ظاہر ہونا چاہئے کہ عدالت نے واقعتا اس کی رہائی کی پر غور کیا تھا اور بے گناہی کے امکانات کو مد نظر رکھ کر زیر سماعت مقدمے کے الزام میں سختی کے بجائے ، یہ بہتر ہے کہ عدالت ضمانت ، خوراک اور طبی سہولیات کے معاملے میں نرمی کرے۔
(3). سیکشن 497 ضابطہ فوجداری(v of 1898)
_جیل ایکٹ سیکشن 32 کے تحت زیر سماعت مقدمہ کے ملزمان اور قابل ضمانت جرم کے مجرموں اور ایسے مجرموں کو جنکی سزا 10 سال سے کم ہے جیل میں غیر ضروری طور پر نظربند نہیں ہونے چاہئے۔ جیل ایکٹ کے سیکشن 32 کے تحت ایسے ملزمان جنکا ابھی جرم ثابت ہونا باقی ہو وہ لباس اور کھانا نجی طور پر رکھنے کے حقدار ہیں۔ جیل ایکٹ واضح کرتا ہے کہ ان کو سزا دیئے جانے تک کون سی سہولیات آزادانہ طور پر فراہم کی جائیں گی۔
جیل ایکٹ کی دفعہ 32 کے تحت زیر سماعت مقدمہ میں بند قیدی کو کپڑے اور کھانا نجی طور پر رکھنے کا حق حاصل ہے۔ یہ سہولیات انہیں آزادانہ طور پر فراہم کی جانی چاہئے جب تک کہ انھیں سزا نہیں مل جاتی۔ جیلوں میں زیادہ ہجوم ہے۔ زیر سماعت قیدیوں کی نظربندی ، خوراک اور طبی سہولیات اور جیل سے عدالت تک ان کی آمدورفت سرکاری خزانے پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتی ہے۔ یہ سب کچھ ضمانت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے ایسے قابل ضمانت جرم، یا چھٹے جرائم اور دس سال سے کم سزا پانے والے مجرموں کو جیل میں غیر ضروری طور پر نظربند نہیں کیا جانا چاہیے
(4). سیکشن 497 ضابطہ فوجداری(V9 1898)
سزائے موت کے مجرم یا عمر قید ، یا دس سال قید کی سزا کے مجرم کی ضمانت کی منظوری / انکار ہر معاملے کے حقائق اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کے ساتھ طے کیا جائے۔.....
جہاں پراسیکیوشن عدالت کو مطمئن کر دے کہ سزائے موت، عمر قید یا دس سال قید کی سزا کے مرتکب ملزم کے جرم کے
ارتکاب کی معقول بنیاد موجود ہے
جہاں پراسیکیوشن عدالت کو مطمئن کر دے کہ سزائے موت، عمر قید یا دس سال قید کی سزا کے مرتکب ملزم کے جرم کے ارتکاب کی معقول بنیاد موجود ہے تو عدالت ضمانت مسترد کر دے گی تاہم اگر ملزم عدالت کو مطمئن کرتا ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے جرم میں ملوث ہے پھر عدالت کو لازمی طور پر اسکی ضمانت منظور کر لینی چاہیے۔عدالت کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے کے لیے، ابتدائی مقدمہ کی سماعت/تفتیش نہیں کرے گی بلکہ صرف عارضی جانچ پڑتال کرے گی۔معقول بنیاد کا مطلب ہے جو معقول اور سمجھداری کی اپیل کرتے ہیں۔
جرائم کے حوالے سے، سزائے موت، یا عمر قید یا دس سال قید کی سزا کی دفعات فطرت کے لحاظ سے قابل سزا نہیں ہے۔ فوجداری قانون میں فیصلے سے پہلےسزا کا کوئی تصور نہیں یے۔ضمانت کی منظور ی یا انکار سے متعلق ہر معاملے کے حقائق اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حتمی فیصلہ کیا جائے۔مقدمہ میں پیش ہونے والے شوائد اور حالات کی گہری تعریف نہ تو ضمانت کے مرحلے میں مطلوب ہے اور نہ ہی جائز ہے لہذا عدالت اس مرحلے پر مقدمہ کی خوبیوں یا دفاع کی
درخواست کی لمحہ بہ لمحہ جانچ نہیں کرے گی
ضمانت کے آرڈر کو احتیاط سے متوازن ہونا چاہئے اور انصاف اور اس سے متعلق قانون کی ضرورت کے پیمانے پر وزن ہونا چاہئے۔ معقول بنیادوں کا مطلب وہ میدان ہے جو معقول اور ہوش مند آدمی کے لئے اپیل کرتے ہیں۔
(5). ضابطہ فوجداری (V9 1898)
سیکشن 497 ضابطہ فوجداری ۔۔۔۔۔ ضمانت کی منسوخی۔
ضمانت کی منظوری اور اس کو منسوخ کرنا --- یکسر دو مختلف باتیں ہیں --- ایک بار جب مجاز عدالت کے ذریعہ ضمانت منظور ہوجائے تواس کو منسوخ کرنے کے لیے مضبوط اور غیر معمولی بنیادوں کی ضرورت ہوگی۔
(f )ضابطہ فوجداری (V9 1898) ---
سیکشن۔ 497 --- ضمانت --- بعد از گرفتاری ضمانت کے لیے کسی فرد کو محروم رکھنا ایک انتہائی سنجیدہ اقدام ہے۔
.
(g) ضابطہ فوجداری (V9 1898) ---
سیکشن۔ 497 --- ضمانت --- ملزم کے ذریعہ مبینہ طور پر سرزد ہونے والےایسے جرائم جنکی سزا موت ہے۔ عمر قید یا دس سال قید کی سزا یے وہاں اگر زرا بھی معقول شبہہ پیدا ہو جائے تو معقول شبہات کا فائدہ ، ملزم کی شناخت ، اس واقعے میں ملزم نے کتنا رول ادا کیا، اس کی موجودگی اور اس کی ذمہ داری سے متعلق تمام سوالات اسے ضمانت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں- جب بھی کسی جرم میں کسی ملزم کی شرکت کے سلسلے میں معقول شک پیدا ہوتا ہے تو اسے ضمانت کے فائدہ سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے ، ضمانت کے لئے نہ تو اسے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزا کے طور پر منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ (شک کا فائدہ)
موت کی سزا ، عمر قید یا دس سال قید کی سزا کا مرتکب ملزم یا الزام ثابت ہونے والے ملزم کی ضمانت منسوخ کرنے کی کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے۔ معقول شک کے فائدے کے سوال کا تعین کرنا ضروری ہے نہ صرف کسی ملزم کے جرم کا فیصلہ کرتے وقت بلکہ ضمانت کے سوال پر بھی غور کرنا کیونکہ جیل کی زندگی اور آزاد زندگی میں بہت فرق ہے۔ قصوروار کے ساتھ بے گناہ افراد کو شامل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ایک بار جب ایک بے قصور شخص سنگین مقدمے میں جھوٹ کی بنیاد پر ملوث ہو کیا جاتا ہے تو پھر اسے کافی وقت کے لئے جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ عام طور پر اس مقدمے کو ختم ہونے میں دو سال لگتے ہیں۔ جب کسی شخص کو جیل میں نظربند کیا جاتا ہے تو ، اس کے تمام منحصر افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی قصور وار کی حتمی سزا میں غلطی سے اسے عبوری ضمانت کی معافی مل سکتی ہے ، لیکن کسی بے قصور شخص کو اس کی بلاجواز قید کے لئے کوئی قابل اطمینان توجیح پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔ مقدمہ میں کسی بھی سطح پر جب بھی جرم میں کسی ملزم کی شرکت کے سلسلے میں معقول شک پیدا ہوتا ہے تو اسے ضمانت کے فائدہ سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔ ضمانت، ضمانت کے طور پر نہ تو روکی جاسکتی ہے اور نہ ہی منسوخ کی جاسکتی ہے۔
(ایچ) سیکشن 497 ضمانت ضابطہ فوجداری (v of 1898)
ہائی کورٹ کے ایک جج کی طرف سے ایک ایف آئی آر کی جانچ پڑتال، سیکشن 161 سی آر پی سی کے تحت درج بیانات اور تفتیش کے دوران جمع کردہ مواد کی رائے یہ تھی کہ اس بات کی کوئی معقول بنیاد یا معقول جواز نہیں تھی کہ ان کے خلاف عائد جرم کے بارے میں ملزمان کو قصوروار ٹھہرایا جائے جبکہ اسی مواد پر ریکارڈ کے مطابق اسی ہائی کورٹ کے ایک اور جج کی رائے سراسر مختلف تھی۔ایک معقول جواز اور معقول بنیاد موجود تھی جس کے مطابق ملزمان نے مبینہ جرم کیا ہے
ہائی کورٹ کے دو ججوں کی اس مقدمہ پر دو مختلف آرا تھی جس سے ملزم کو اس جرم سے مشکوک کرنے کے لیے مناسب بنیادوں کا وجود حاصل ہو گیا تھا اور اس مرحلے پر ملزم کو شک کا فایدہ اٹھانے کا اہل بنایا گیا تھا۔ کسی بھی معاملے میں ملزم کے جرم کے بارے میں ہائی کورٹ کے دو ججوں کے مختلف خیالات/ آرا نے سیکشن 497 کے سب سیکشن2 کے معنی میں مزید انکوائری کا معاملہ پیش کیا تھا۔
Friday, 27 December 2019 by get everything · 1
Subscribe to:
Comments (Atom)



