EMI Loan Calculator

EMI Loan Calculator

ad3

Pages

Friday, 27 December 2019

P L D 1995 SC 34





P L D 1995 SC 34


طارق بشیر اور 5 دیگر --- درخواست گزار۔

بنام

سرکار

1994 کی اپیل نمبر 56-K کی کرمنل پیٹیشن میں leave to appeal درخواست کا فیصلہ 31 اگست 1994 کو ہوا۔

(کراچی میں سندھ ہائیکورٹ کے حکم سے اپیل پر ، مورخہ 1994. 5.7 کو فوجداری ضمانت نمبر 265/1994 (کراچی) 117/1994 (حیدرآباد)) میں منظور ہوا۔

(ا)۔ ضابطہ فوجداری (v) 1998


سیکشن۔ 496 اور 497 --- ضمانت --- قابل ضمانت جرم میں ضمانت کی فراہمی ایک حق ہے جبکہ ناقابل ضمانت جرم  میں ضمانت کی فراہمی ایک حق نہیں بلکہ ایک رعایت ہے ---
 ایسا جرم جسکی سزا دس سال سے کم ہو اس میں ضمانت کا ایک قاعدہ اور اصول طے ہے اور  غیر معمولی  معاملات میں جرم ثابت ہونے پر جس میں سزا دس سال سے زیادہ ہو وہاں ضمانت مسترد کردی جاتی ہے۔

۔ سیکشن 497 ، سی آر پی سی نا قابل ضمانت جرم کو دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے (i) ایسے جرائم  جنکی کی سزا،سزائے موت ہو، عمر قید ہو، یا دس سال سے زیادہ ہو  اور (ii) ایسے جرائم جن کی سزا دس سال سے کم ہو
ایسے ناقابل ضمانت جرائم جنکی سزا دس سال سے کم ہو وہاں عدالت اگر مطمئن ہو جائے تو ضمانت دی جا سکتی ہے لیکن ضمانت صرف غیر معمولی صورت حال میں مسترد کی جائے گی مثلا --- ---
(الف) جہاں ملزم کے مفرور ہونے کا امکان موجود ہو۔
(ب) جہاں ملزم کا پراسیکیوشن کے ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا خدشہ ہو۔
(ج) جہاں ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے تو جرم کا اعادہ ہونے کا خطرہ ہو۔
(د) جہاں ملزم سابقہ ​​مجرم ہو۔


(2). ضا بطہ فوجداری(v of 1998)
-سیکشن۔ 497 سی آر پی سی--- ضمانت -_- زیر سماعت مقدمہ میں قابل ضمانت جرائم میں اگر ملزم ضمانت کے مچلکے پیش کرنے میں ناکام ہو جائے تو اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے تو یہاں عدالت کی زمہ داری ہے کہ وہ ملزم کے ذاتی بانڈ کے عوض اسکی رہائی کی معقولیت پر غور کرے نہ صرف جوڈیشل ریمانڈ کا پہلا حکمنامہ جاری ہونے پر بلکہ آنے والا ہر آرڈر ملزم کے ذاتی بانڈ کے عوض اسکی رہائی کو یقینی بنائے۔

قابل ضمانت جرائم کے زیر سماعت مقدموں میں اکثر ملزمان ضمانتی مچلکے نہ پیش کر سکنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر جیل بھیج دیے جاتے ہیں۔حالانکہ قانون میں گنجائش موجود ہے کہ انہیں ذاتی بانڈ کے عوض رہا کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ بہت ہی چھوٹے مقدموں میں عدالتیں/ماتحت عدالتیں ملزمان کو ضمانتی مچلکوں کی ناکامی پرجوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہیں جسکے ۔نتیجے میں سینکڑوں ملزمان جو کہ ذاتی بانڈ کے عوض رہائی پا سکتے تھے ایک لمبے عرصے تک جیل میں پڑے رہتے ہیں۔ لہذا سپریم کورٹ نے ہدایات جاری کیں کہ قابل ضمانت جرائم میں ملزمان کی طرف سے ضمانتی مچلکوں کی ناکامی کی صورت میں انہیں ذاتی بانڈ کے عوض   ۔اس لئے سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ ضمانت ضمانت / ضمانت کے مچلکے پیش کرنے میں ناکامی پر ملزم کو جیل بھیجنے یعنی جوڈیشل ریمانڈ کے نہ صرف پہلے حکم بلکہ اس کے بعد آنے والے ہر حکم میں یہ بھی ظاہر ہونا چاہئے کہ عدالت نے واقعتا اس کی رہائی کی  پر غور کیا تھا اور بے گناہی کے امکانات کو مد نظر رکھ کر زیر سماعت مقدمے کے الزام میں سختی کے بجائے ، یہ بہتر ہے کہ عدالت ضمانت ، خوراک اور طبی سہولیات کے معاملے میں نرمی کرے۔

(3). سیکشن 497 ضابطہ فوجداری(v of 1898)
_جیل ایکٹ سیکشن 32 کے تحت زیر سماعت مقدمہ کے ملزمان اور قابل ضمانت جرم  کے مجرموں اور ایسے مجرموں کو جنکی سزا 10 سال سے کم ہے جیل میں غیر ضروری طور پر نظربند نہیں ہونے چاہئے۔ جیل ایکٹ کے سیکشن 32 کے تحت  ایسے ملزمان جنکا ابھی جرم ثابت ہونا باقی ہو وہ لباس اور کھانا نجی طور پر رکھنے کے حقدار ہیں۔ جیل ایکٹ واضح کرتا ہے کہ ان کو سزا دیئے جانے تک کون سی سہولیات آزادانہ طور پر فراہم کی جائیں گی۔
جیل ایکٹ کی دفعہ 32 کے تحت زیر سماعت مقدمہ میں بند قیدی کو کپڑے اور کھانا نجی طور پر رکھنے کا حق حاصل ہے۔ یہ سہولیات انہیں آزادانہ طور پر فراہم کی جانی چاہئے جب تک کہ انھیں سزا نہیں مل جاتی۔ جیلوں میں زیادہ ہجوم ہے۔ زیر سماعت قیدیوں کی نظربندی ، خوراک اور طبی سہولیات اور جیل سے عدالت تک ان کی آمدورفت سرکاری خزانے پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتی ہے۔ یہ سب کچھ ضمانت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے ایسے   قابل ضمانت جرم، یا چھٹے جرائم اور دس سال سے کم سزا پانے والے مجرموں کو جیل میں غیر ضروری طور پر نظربند نہیں کیا جانا چاہیے

(4). سیکشن 497  ضابطہ فوجداری(V9 1898)

 سزائے موت کے مجرم یا عمر قید ، یا دس سال قید کی سزا کے مجرم کی ضمانت کی منظوری / انکار ہر معاملے کے حقائق اور حالات و واقعات کو مدنظر  رکھتے ہوئے انصاف کے ساتھ طے کیا جائے۔.....
جہاں پراسیکیوشن عدالت کو مطمئن کر دے کہ سزائے موت، عمر قید یا دس سال قید کی سزا کے مرتکب ملزم کے جرم کے 
ارتکاب کی معقول بنیاد موجود ہے 

جہاں پراسیکیوشن عدالت کو مطمئن کر دے کہ سزائے موت، عمر قید یا دس سال قید کی سزا کے مرتکب ملزم کے جرم کے ارتکاب کی معقول بنیاد موجود ہے تو عدالت ضمانت مسترد کر دے گی تاہم اگر ملزم عدالت کو مطمئن کرتا ہے کہ اس بات پر یقین کرنے کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے جرم میں ملوث ہے پھر عدالت کو لازمی طور پر اسکی ضمانت منظور کر لینی چاہیے۔عدالت کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے کے لیے، ابتدائی مقدمہ کی سماعت/تفتیش نہیں کرے گی بلکہ صرف عارضی جانچ پڑتال کرے گی۔معقول بنیاد کا مطلب ہے جو معقول اور سمجھداری کی اپیل کرتے ہیں۔
جرائم کے حوالے سے، سزائے موت، یا عمر قید یا دس سال قید کی سزا  کی دفعات فطرت کے لحاظ سے قابل سزا نہیں ہے۔ فوجداری قانون میں فیصلے سے پہلےسزا کا کوئی تصور نہیں یے۔ضمانت کی منظور ی یا انکار سے متعلق  ہر معاملے کے حقائق اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حتمی فیصلہ کیا جائے۔مقدمہ میں پیش ہونے والے شوائد اور حالات کی گہری تعریف نہ تو ضمانت کے مرحلے میں مطلوب ہے اور نہ ہی جائز ہے لہذا عدالت اس مرحلے پر مقدمہ کی خوبیوں یا دفاع کی 
درخواست کی لمحہ بہ لمحہ جانچ نہیں کرے گی
ضمانت کے آرڈر کو احتیاط سے متوازن ہونا چاہئے اور انصاف اور اس سے متعلق قانون کی ضرورت کے پیمانے پر وزن ہونا چاہئے۔ معقول بنیادوں کا مطلب وہ میدان ہے جو معقول اور ہوش مند آدمی کے لئے اپیل کرتے ہیں۔

(5). ضابطہ فوجداری (V9 1898)

سیکشن 497 ضابطہ فوجداری ۔۔۔۔۔ ضمانت کی منسوخی۔
ضمانت کی منظوری اور اس کو منسوخ کرنا --- یکسر دو مختلف باتیں ہیں --- ایک بار جب مجاز عدالت کے ذریعہ ضمانت منظور ہوجائے تواس کو منسوخ کرنے کے لیے  مضبوط اور غیر معمولی بنیادوں کی ضرورت ہوگی۔

(f )ضابطہ فوجداری  (V9 1898) ---

 سیکشن۔ 497 --- ضمانت --- بعد از گرفتاری  ضمانت کے لیے کسی فرد کو محروم رکھنا ایک انتہائی سنجیدہ اقدام ہے۔
.
(g) ضابطہ فوجداری  (V9 1898) ---

سیکشن۔ 497 --- ضمانت --- ملزم کے ذریعہ مبینہ طور پر سرزد ہونے والےایسے جرائم جنکی سزا موت ہے۔ عمر قید یا دس سال قید کی سزا یے وہاں اگر زرا بھی معقول شبہہ پیدا ہو جائے تو معقول شبہات کا فائدہ ، ملزم کی شناخت ، اس واقعے میں ملزم نے کتنا رول ادا کیا، اس کی موجودگی اور اس کی ذمہ داری سے متعلق تمام سوالات اسے ضمانت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں- جب بھی کسی جرم میں کسی ملزم کی شرکت کے سلسلے میں معقول شک پیدا ہوتا ہے تو اسے ضمانت کے فائدہ سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے ، ضمانت کے لئے نہ تو اسے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزا کے طور پر منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ (شک کا فائدہ)

موت کی سزا ، عمر قید یا دس سال قید کی سزا کا مرتکب ملزم یا الزام ثابت ہونے والے ملزم کی ضمانت منسوخ کرنے کی کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے۔ معقول شک کے فائدے کے سوال کا تعین  کرنا ضروری ہے نہ صرف کسی ملزم کے جرم کا فیصلہ کرتے وقت بلکہ ضمانت کے سوال پر بھی غور کرنا کیونکہ جیل کی زندگی اور آزاد زندگی میں بہت فرق ہے۔ قصوروار کے ساتھ بے گناہ افراد کو شامل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ایک بار جب ایک بے قصور شخص سنگین مقدمے میں جھوٹ کی بنیاد پر ملوث ہو کیا جاتا ہے تو پھر اسے کافی وقت کے لئے جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ عام طور پر اس مقدمے کو ختم ہونے میں دو سال لگتے ہیں۔ جب کسی شخص کو جیل میں نظربند کیا جاتا ہے تو ، اس کے تمام منحصر افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی قصور وار کی حتمی سزا میں  غلطی سے اسے عبوری ضمانت کی  معافی مل سکتی ہے ، لیکن کسی بے قصور شخص کو اس کی بلاجواز قید کے لئے کوئی قابل اطمینان توجیح پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔ مقدمہ میں کسی بھی سطح پر جب بھی جرم میں کسی ملزم کی شرکت کے سلسلے میں معقول شک پیدا ہوتا ہے تو اسے ضمانت کے فائدہ سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔ ضمانت، ضمانت کے طور پر نہ تو روکی جاسکتی ہے اور نہ ہی منسوخ کی جاسکتی ہے۔

(ایچ) سیکشن 497  ضمانت  ضابطہ فوجداری (v  of 1898)
ہائی کورٹ کے ایک جج کی طرف سے  ایک ایف آئی آر کی جانچ پڑتال، سیکشن 161 سی آر پی سی کے تحت درج بیانات اور تفتیش کے دوران جمع کردہ مواد کی رائے یہ تھی کہ اس بات کی کوئی معقول بنیاد یا معقول جواز نہیں تھی کہ ان کے خلاف  عائد جرم کے بارے میں ملزمان کو قصوروار ٹھہرایا جائے جبکہ اسی مواد پر ریکارڈ کے مطابق اسی ہائی کورٹ کے ایک اور جج کی رائے سراسر مختلف تھی۔ایک معقول جواز اور معقول بنیاد موجود تھی جس کے مطابق ملزمان نے مبینہ جرم کیا ہے
ہائی کورٹ کے دو ججوں کی اس مقدمہ پر دو مختلف آرا تھی جس سے ملزم کو اس جرم سے مشکوک کرنے کے لیے مناسب بنیادوں کا وجود حاصل ہو گیا تھا اور اس مرحلے پر ملزم کو شک کا فایدہ اٹھانے کا اہل بنایا گیا تھا۔ کسی بھی معاملے میں ملزم کے جرم کے بارے میں ہائی کورٹ کے دو ججوں کے مختلف خیالات/ آرا نے سیکشن 497 کے سب سیکشن2 کے معنی میں مزید انکوائری کا معاملہ پیش کیا تھا۔

























































































































1 Responses to “P L D 1995 SC 34”

Micheal Alexander said...
6 October 2020 at 21:05

Thank you for your articles that you have shared with us. Hopefully you can give the article a good benefit to us. Broward County Ethics lawyer


Post a Comment

Socialize

All Rights Reserved Free Help Here | Distributed By Blogspot Templates | Designed By Bloggermint